• KHI: Asr 5:09pm Maghrib 7:11pm
  • LHR: Asr 4:50pm Maghrib 6:54pm
  • ISB: Asr 4:59pm Maghrib 7:04pm
  • KHI: Asr 5:09pm Maghrib 7:11pm
  • LHR: Asr 4:50pm Maghrib 6:54pm
  • ISB: Asr 4:59pm Maghrib 7:04pm
شائع May 16, 2025

اس سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔


کراچی تالپوروں کے حوالے کرنے کے بعد دریانو مل اور میروں کے تعلقات بہت اچھے رہے اور رہنے بھی چاہیے تھے کیونکہ فریقین کو ایک دوسرے کی سخت ضرورت بھی تھی۔

تالپور بیوپاری نہیں تھے اور دریانو مل خاندان کے پاس تخت نہیں تھا۔ میر فتح علی خان یہ بالکل بھی نہیں بھولا تھا کہ انہیں کراچی کا قبضہ لینے کے لیے تین بار اپنی فوج بھیجنی پڑی تھی مگر اس نے بھوجانی خاندان پر لاگو بہت سارے ٹیکسز میں بہت زیادہ رعایت دی۔ بیوپار پر آب کاری محصول میں تین فیصد اور باغات پر پورا محصول معاف کر دیا تھا اور ساتھ ہی شراب کی اُس بھٹی کو بھی جاری رہنے کی اجازت دی جو انہیں قلات یا اس سے پہلے کی حکومتوں کی طرف سے دی گئی تھی۔

تالپوروں کا جیسے حکومت کا سیٹ اپ مکمل ہوا تو انہوں نے دریانو مل کو حیدرآباد آنے کی دعوت دی اور جب بھوجانی خاندان وہاں پہنچا تو انہیں سرکاری مہمان کا پروٹوکول دیا گیا تھا اور ان کی مہمان نوازی میں کوئی کمی نہیں چھوڑی گئی۔ ایک دوسرے کو تحفے تحائف دیے گئے اور ایک ماہ تک یہ دعوت جاری رہی۔

   سندھ کے تالپور حکمران
سندھ کے تالپور حکمران

ناؤنمل اپنے خاندان کے بزرگوں اور بیوپار کے متعلق ہمیں بہت ساری معلومات دیتا ہے اور بتاتا ہے کہ اس کا خاندان اکٹھا رہتا تھا اور کاروبار ایسے چلتا تھا جیسے کوئی چھوٹی سی حکومت چلائی جاتی ہے۔ ’ہماری خوراک کے لیے ایک بہت بڑا گودام تھا جس میں سامان رکھا جاتا تھا، ہمارے گھوڑوں کے اصطبل میں، 40 اعلیٰ نسل کے گھوڑے تھے۔ اس کے ساتھ دوسرے حصے میں ایک باغ میں، ہرن، خرگوش، مور، کبوتر اور مینائیں تھیں‘۔

ناؤنمل کے مطابق اس کے خاندان کی خوراک اور ملازمین کی تنخواہ پر سالانہ 40 ہزار روپے کا خرچہ آتا تھا۔ وہ اپنی ایک بڑی بیوپاری کشتی ’لکھمی پرساد‘ جس کو دوارکا میں لوٹا گیا تھا، اُس کی واپسی کی دلچسپ کہانی بھی ہمیں سناتا ہے اور یہ کہانی اس حوالے سے ہمیں ضرور سننی چاہیے کہ ایک تو اس میں حقیقت کی دلچسپی بھری ہے اور دوسرا یہ کہ اس زمانے میں، سمندری سفر کے دوران امن و امان کی صورت حال کیسی تھی۔

   پور بندر گجرات کی ایک پرانی تصویر
پور بندر گجرات کی ایک پرانی تصویر

ناؤنمل بتاتا ہے، ’دوارکا آستان اور جزیرے کے قریب رہنے والے سمندری قزاقوں واگھروں نے بڑا اُدھم مچایا ہوا تھا۔ وہ انتہائی شاطر سمندری لٹیرے تھے جن کی وجہ سے ہم نے اپنے بیوپاری جہازوں پر توپیں نصب کروائیں اور بارود وغیرہ رکھا کہ ان کی لوٹ کھسوٹ سے بچ سکیں۔ ہمارا ایک جہاز لکمی پرساد، مالابار سے واپسی پر جب پُور بندر (یہ انڈیا گجرات میں ہے، اس دور میں یہ راجپوتوں کی ریاست تھی، مہاتما گاندھی کی پیدائش بھی اسی ریاست میں ہوئی تھی) کے نزدیک پہنچا تو اسے واگھروں کے جہازوں نے اپنے گھیرے میں لے لیا۔ ہمارے جہاز پر بہت سارے جوکھیا سپاہی تھے اس لیے دو بدو لڑائی ہوئی جس میں ہمارے تھوڑے اور واگھروں کے بہت آدمی مارے گئے اور جوکھی ان کے تین جہاز اور آدمی پکڑ کر کراچی لے آئے۔

’ہم نے لکمی پرساد کی واپسی اور واگھروں سے کامیاب مدبھیڑ کی خوشی میں شاندار جشن منایا۔ جب ان کے سردار کو اس حادثے کی خبر ہوئی تو اس نے ایک تحریری پیغام میرے دادا لعل منداس کو بھیجا کہ ان کے آدمیوں کو آزاد کیا جائے۔ واگھروں کا دستور یہ تھا کہ ہند سمندر کے مغرب میں ان کا راج تھا، وہاں سے جو جہاز گزرتا وہ اس سے ٹیکس وصول کرتے اور ٹیکس وصول کرنے کے بعد وہ ایک پروانہ جاری کرتے۔ وہ پروانہ جس جہاز کے پاس ہوتا، اسے کوئی پریشان نہیں کرتا تھا اور وہ بڑے سکون سے مغربی سمندر میں سفر کر کے اپنی منزل کو پہنچ جاتا تھا‘۔

   پوربندر کے نزدیک سمندر میں بیوپاری کشتی پر واگھروں کا حملہ—تصویر: اے آئی
پوربندر کے نزدیک سمندر میں بیوپاری کشتی پر واگھروں کا حملہ—تصویر: اے آئی

وہ مزید بتاتا ہے، ’واگھروں کے سردار نے اپنے لوگوں اور جہازوں کی واپسی کے بدلے بھوجوانی خاندان سے وعدہ کیا کہ جن بیوپاری جہازوں کے پاس بھوجوانی خاندان کا پروانہ ہوگا انہیں نہ پریشان کیا جائے گا اور نہ ہی کوئی خراج وصول کیا جائے گا۔ واگھروں کے سردار کی اس بات پر ایک معاہدہ تحریر ہوا جس پر سردار نے دستخط کیے۔ اس دستخط کے بعد ان کے لوگوں اور کشتیوں کو چھوڑا گیا۔ اس واقعے کو در گزر نہیں کیا جا سکتا۔

’اس دور میں قزاقوں سے لڑنا اور بیوپاری ہوکر اپنی شرط منوانا اس بات کا مظہر ہے کہ یہ خاندان زمانے کو پرکھنے والا خاندان بھی تھا جس کی وجہ سے اس کا نام ان دنوں کے بیوپاری خاندانوں اور حاکموں تک پہنچا ہوگا۔ یہ موجودہ کراچی کی بڑی تعمیرات کی شاندار بنیاد کی ابتدائی اینٹیں تھیں جو وقت چُن رہا تھا‘۔

ناؤنمل کے دادا کی نظر جب کمزور ہوگئی اور وہ کچھ تحریر اور پڑھ نہیں سکتے تھے تو ناؤنمل اپنے دادا کے ساتھ ساتھ رہنے لگا تھا تب اس کی عمر 11 برس تھی۔ وہ اس حوالے سے لکھتا ہے کہ ’تب سے روزنامچہ لکھنے اور کراچی کی بیوپاری کوٹھی کے کاروبار کی لین دین کا ریکارڈ رکھنے کا کام میرے حوالے کیا گیا۔ شام کو 6 بجے سے رات کو تقریباً 10 بجے تک میں روزانہ بیوپار کے حوالے سے ہدایات کے لیے خطوط تحریر کرتا تھا۔ یہ خط ہندی، سندھی، پنجابی اور گجراتی زبان میں تحریر کرنے پڑتے تھے۔ کبھی کبھی تو ایک نشست میں تحریریں بہت طویل ہوجاتی تھیں کہ 20 صفحات کے برابر جتنا مواد تحریر کرنا پڑتا تھا‘۔

ناؤنمل کا دادا 1830ء کو جہان سے رخصت ہوا۔ وہ اپنے دادا کی وفات کے بعد کے متعلق لکھتا ہے کہ ’دادا کے انتقال کے بعد دو ماہ تک مسلسل ہر طبقے کے لوگوں خواہ وہ ہندو تھے یا مسلمان، ان کے پورے خاندان کو کھانا کھلایا جاتا تھا۔ ہندو ہمارے ہاں آ کر کھاتے اور مسلمانوں کو ان کے گھر کھانا بھیج دیا جاتا تھا۔ کراچی کی نزدیک والی بستیوں جیسے حب، مگر پیر (منگھو پیر) اور ملیر تک کھانے کا مکمل راشن پہنچایا جاتا کہ وہ گھر پر پکا کر کھائیں‘۔

   کارلیس کا بنایا ہوا نقشہ جس میں کمپنی کی بیوپاری کوٹھی اور کراچی کے قلعہ کو واضع کیا گیا ہے
کارلیس کا بنایا ہوا نقشہ جس میں کمپنی کی بیوپاری کوٹھی اور کراچی کے قلعہ کو واضع کیا گیا ہے

کراچی بستی کی تین صدیاں پرانی اور ایسی مکمل تصویر شاید ہمیں کسی اور تحریر سے نہ مل سکے، آپ اور ہم اگر اس تحریر میں کراچی کے متعلق ڈھونڈنا چاہیں تو بہت کچھ مل جائے گا۔ کراچی کے قلعے کے اندر کی تفصیلی حالت کہ وہاں جو لوگ اکٹھے رہتے تھے ان کے آپس میں ذات پات اور مذہب کے فرق کے باوجود آپس میں کیسے رشتے تھے۔

کراچی کے قرب و جوار کے لیے ناؤنمل نے جو ’نزدیک‘ کا لفظ استعمال کیا ہے وہ ایک جانب تو اس وقت کی کراچی کی سرحدیں بیان کرتا ہے جبکہ دوسری جانب اس وقت آپ اگر لیاری کنارے کھارادر پر کھڑے ہوکر اندازہ لگائیں کہ حب، منگھو پیر اور ملیر جنہیں وہ تین صدیاں پہلے نزدیک کی بستیاں کہتا ہے، وہ ہمیں آج کے دور میں کتنی دور محسوس ہوتی ہیں۔ یہ نزدیکیاں اور دوریاں دراصل کیفیات ہیں۔ میں شاہ عبداللطیف بھٹائی کا ایک بیت آپ کو ضرور سنانا چاہوں گا جس کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے کہ،

کچھ جو نزدیک اور آس پاس ہیں مگر محسوس بہت دور ہوتے ہیں،
کچھ جو پیارے ہیں جو ہوتے تو دور ہیں مگر محسوس انتہائی قریب ہوتے ہیں،
کچھ کے تو نام بھی یاد نہیں آتے، مگر کچھ ایسے ہیں جن کو یاد کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی،
کہ وہ ہر پل دل کے آنگن میں ڈیرے ڈالے بیٹھے ہیں

   مگر پیر (منگھو پیر) کی 19ویں صدی کی آخری دہائیوں میں لی گئی تصویر
مگر پیر (منگھو پیر) کی 19ویں صدی کی آخری دہائیوں میں لی گئی تصویر

ناؤنمل کے دل و دماغ میں کراچی کا لینڈ اسکیپ وسیع تھا. میں بھوجوانی خاندان کے لیے اچھی کیفیت اور اچھے الفاظ رکھتا ہوں, مگر میری ناؤنمل سے جو شکایت ہے وہ اس تک کبھی نہیں پہنچے گی وہ یہ کہ وہ کراچی کے متعلق چھوٹی سے چھوٹی بات کو بیان کرتا ہے مگر کمپنی سرکار کی کراچی میں بننے والی پہلی کوٹھی جو کراچی کوٹ کے قریب شمال مشرق میں قائم ہوئی تھی اس کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتا۔ اس کی تعمیر پر افغانستان کے ساتھ اودھ اور راجپوتانہ بھی ناراض تھا جبکہ بھوجوانی خاندان بھی اس کوٹھی کے سخت مخالفین میں شامل تھا۔

اس اہم اور بنیادی حقیقت کا ناؤنمل کیوں ذکر نہیں کرتا؟ وہ ہم آگے جانیں گے کیونکہ گوری سرکار کے زمانے میں تحریر کی ہوئی اس آتم کتھا میں 4 ایسے جملے نہیں ہیں جن میں کمپنی سرکار پر تنقید کی گئی ہو۔

چلیے فی الوقت ناؤنمل سے کچھ وقت کے لیے اجازت لیتے ہیں کیونکہ شام ہونے کو آئی ہے اور اسے گماشتوں کو ہدایات تحریر کرنی ہیں جو بڑا تھکا دینے والا کام ہے۔ تب تک ہم اُس پہلی تجارتی کوٹھی کی تعمیرات، افتتاح، بیوپار اور اُس کے جلد ہی بند ہونے کی کہانی سنتے ہیں جنہیں ہم نے ادھورا چھوڑا تھا۔

اب ہم ناتھن کرو کی 1800ء کی ابتدا میں تحریر کی ہوئی ایک رپورٹ کو پڑھتے ہوئے 19ویں صدی میں داخل ہوتے ہیں۔ میں نے بہت کوشش کی کہ مجھے کہیں سے بھی ناتھن کرو صاحب کی تصویر مل جائے مگر میں اپنی کوششوں میں کامیاب نہ ہو سکا۔ کاش اس رپورٹ کے ساتھ میں تصویر بھی آپ کو دکھا سکتا۔ یہ رپورٹ اُن دنوں کے جنوبی سندھ کے اہم شہروں، کراچی، ننگر ٹھٹہ اور حیدرآباد کی معاشی و معروضی حالات کی ایک حقیقی تصویر پیش کرتی ہے۔

’کراچی کا قلعہ مٹی اور لکڑی کی دیوار کا بنا ہوا ہے۔ اس پر کچھ توپیں رکھی ہوئی ہیں جس سے سمندر سے آتے جہاز کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا کیونکہ جہاز کو قلعے سے تین کوس دور سامان اُتارنے پر مجبور کیا جاتا ہے مگر توپ کے یہ گولے جہاز سے اترے ہوئے فوجیوں کو نقصان ضرور پہنچا سکتے ہیں۔ ساتھ میں جہاں جہاز لنگرانداز ہوتے ہیں وہاں سے 200 ٹن سے زائد وزنی جہاز کراچی بندرگاہ سے آسانی سے نہیں گزر سکتا۔

’اگر کوئی جہاز دشمنی لے کر بندرگاہ میں داخل ہو تو اسے ان کشتیوں سے آمنا سامنا کرنا پڑے گا جو وہاں کھڑی ہوتی ہیں۔ ان کشتیوں میں سے کچھ پر تو 12 منوں سے زائد وزنی اور طاقتور توپیں نصب ہوتی ہیں اور انہیں چلانے والے بھی ساتھ ہوتے ہیں اور حملے کی صورت میں وہاں رضاکاروں کی کمی نہیں ہوتی۔

   ٹھٹہ کے قریب بادبانوں والی چھوٹی بیوپاری کشتیاں
ٹھٹہ کے قریب بادبانوں والی چھوٹی بیوپاری کشتیاں

’کراچی بندر کا محصول شہر کے محصول کے ساتھ 80 ہزار روپے ہے جبکہ شاہ بندر اور ٹھٹہ کا محصول ایک لاکھ 20 ہزار اور حیدرآباد کا ڈیڑھ لاکھ موصول ہوتا ہے۔ سندھ کے حاکموں کو سالانہ محصول کی مد میں 40 لاکھ تک موصول ہوتے ہیں جس میں سے 10 لاکھ وہ افغانستان کے بادشاہ کو خراج کے طور پر دیتے ہیں۔

’یہاں کے امیروں کے پاس بہت پیسہ ہے مگر یہ معاشیات کو بہتر بنانے کی کوشش بالکل بھی نہیں کرتے۔ یہاں نمک کراچی اور سندھ کے دوسرے ساحلی کناروں سے اکٹھا کیا جاتا ہے جبکہ قلمی شورے (Potassium nitrate) کے ٹھٹہ کے قریب بہت ذخائر ہیں۔ شاہ بندر اور اورنگا بندر کے قریب یہ کم ملتا ہے مگر ساکرہ (میرپور) پرگنہ میں یہ بڑی مقدار میں موجود ہے۔ یہاں آموں اور تربوز کی فراوانی ہے جبکہ دیگر میوہ جات کی کمی ہے۔ البتہ ناریل اور کھجور مل جاتے ہیں۔ یہاں جلاؤ لکڑیاں بے تحاشا ہے جبکہ کشتیاں بنانے کے لیے لکڑی ملبار سے منگوائی جاتی ہیں جن سے چھوٹی اور بڑی کشتیاں اور جھمٹی کشتیاں بنائی جاتی ہیں‘۔

   اونٹوں کے قافلے ایک اسکیچ
اونٹوں کے قافلے ایک اسکیچ

رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ ’سندھ کی ساحلی آبادیوں میں اونٹ بہت پائے جاتے ہیں یہ انتہائی قیمتی جانور ہے۔ کراچی سے کَچھ، بھج، کیچ اور قندھار تک زمینی باربرداری اونٹوں کے قافلوں پر ہوتی ہے۔ ان قافلوں کے ساتھ جو لوگ ہوتے ہیں وہ دن کو آرام کرتے ہیں اور رات کو سفر کرتے ہیں۔ یہاں ’پلو‘ مچھلی بہت مشہور ہے۔ یہاں جنگلات میں گیدڑ، بھیڑیے، لومڑیاں اور دیگر جنگلی جانوروں ملتے ہیں جبکہ دریائے سندھ اور جھیلوں میں لودھڑوں کی بہتات ہے۔ ان کا شکار کرکے ان کی کھالیں اُتار لی جاتی ہیں اور ان کھالوں کی کابل اور قندھار کی مارکیٹوں میں اچھی قیمت مل جاتی ہے۔

’یہاں ایرانی اور ملتانی پنجابی (سرائیکی) زبان عام طور پر بولی جاتی ہے جبکہ اردو صرف کچھ بیوپاریوں اور مسافروں کو آتی ہے عام لوگ اسے نہیں سمجھ پاتے۔ فارسی زبان درباروں اور سرکاری اسکولز میں پڑھائی جاتی ہے۔ فردوسی کا ’شاہنامہ‘ دربار میں پڑھا جاتا ہے اور کتنے درباریوں کو یہ زبان یاد بھی ہے۔ یہاں کا امیر جب کسی اور جگہ سفر کرتا ہے تو جب تک وہ پیدل چلتا جاتا ہے تو اس کے آگے، ایک شاعر ہوتا ہے جو اپنی بڑی آواز میں بادشاہ کی ثنا کرتا جاتا ہے اور ساتھ وقفے وقفے سے بادشاہ کا نام بھی پکارتا جاتا ہے۔ کچھ مواقع پر شاعر کو آواز اور بڑا کرنے کی ہدایات بھی ملتی رہتی ہیں تاکہ دور دور تک یہ کلمات لوگوں کے کانوں تک پہنچ سکیں۔

   دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر جھرک بستی— اے آئی
دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر جھرک بستی— اے آئی

’کراچی سے ٹھٹہ جانے والا راستہ سیدھا ہے جو توپوں اور خوراک کی آمدورفت کے لیے مناسب ہے اور بارشوں کے بعد یہ راستہ ہریالی سے بھر جاتا ہے اور انتہائی شاندار منظر پیش کرتا ہے جو مویشیوں کو بے تحاشا چارہ بھی فراہم کرتا ہے۔ ٹھٹہ سے حیدرآباد تک پانی کے راستے (دریائے سندھ) پر سفر شاندار ثابت ہوگا۔

’ٹھٹہ سے فوج خشکی کے راستے بھی حیدرآباد کی طرف بڑھ سکتی ہے۔ لیکن جب تک وہ اُس جزیرے تک پہنچ سکے (جس پر حیدرآباد کا قلعہ بنا ہوا ہے) جہاں پہنچنا مشکل ہے۔ ایک تو راستہ خراب ہے اور دوسرا حیدرآباد کے قریب دریا سندھ کو پار کرنا مشکل ہے کیونکہ یہاں اس کا پاٹ ایک میل تک چوڑائی میں پھیلا ہوتا ہے جہاں امیر کسی بھی فوج کے اترنے سے پہلے کناروں پر اپنی فوج کے ساتھ تیار کھڑا ہوگا۔

’البتہ ٹھٹہ اور حیدرآباد کے درمیان سندھو دریا کے بہاؤ کے مغربی کنارے پر ایک چھوٹا سا شہر ’جھرک‘ ہے جہاں سیہون سے آتے ہوئے اناج اور گھی کا گدام ہے۔ یہاں پالتو جانور بھی زیادہ ہیں جنہیں آسانی سے قبضے میں لیا جا سکتا ہے‘۔

کرو کی تحریر سے یہ اخذ کرنا اتنا مشکل نہیں ہے کہ یہ رپورٹ کیوں تحریر کی گئی تھی کیونکہ کمپنی سرکار یہاں بیوپار کے ساتھ سیاسی طور پر بھی اپنی جڑیں مضبوط کرکے قبضہ کرنا چاہتی تھی۔

   18ویں صدی میں ملیر میں گھنے جنگل اور جنگلی حیات— اے آئی
18ویں صدی میں ملیر میں گھنے جنگل اور جنگلی حیات— اے آئی

ان زمانوں میں ملیر میں ایک گھنا جنگل ہوا کرتا تھا جس کا ذکر ہمیں مقامی تاریخ کے سوا گزیٹیئرز میں بھی ملتا ہے جہاں جنگلی حیات کی بھی بہت ساری اقسام رہتے تھے۔ اب جنگل تو نہ جانے کہاں ہیں البتہ کچھ جنگلی حیات کہ جن کی نسلوں میں جینے کی تمنا زوروں پر تھی، وہ زندہ رہ گئے ہیں۔ آپ اگر گڈاپ کے وسیع علاقے میں چلے جائیں تو گیدڑ، لومڑی، گلہری اور دوسرے پرندے دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔

کراچی جہاں اس وقت کوٹھی کی تعمیر مکمل ہو چکی ہے، کرو بمبئی سے لوٹ آیا ہے اور وہ تحائف دینے کے بہانے حیدرآباد کی طرف نکل پڑا ہے۔ اس سفر کا ذکر اس نے اپنی 7 مئی 1800ء کی ایک رپورٹ میں کیا ہے جو اس نے بمبئی کے گورنر ’جوناتھن ڈنکن اسکوائر‘ کو تحریر کی تھی۔ اس میں وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ کراچی کے بیوپاری نہیں چاہتے کہ کمپنی یہاں تجارتی کوٹھی کھولے اور فقط ٹھٹہ تک محدود رہے۔

ان اعتراضات کی وجہ سے سندھ کے امیر کچھ پریشان ہیں اور ساتھ میں ان کے ذہن میں یہ بھی شکوک ہیں کہ ہم یہاں بیوپار کے لیے نہیں قبضے کی نیت سے آ رہے ہیں’۔

   کرو، درہم اور توپخانے کے لوگوں سمیت سندھو کشتی پر ٹھٹہ سے حیدرآباد جاتے ہوئے—اے آئی
کرو، درہم اور توپخانے کے لوگوں سمیت سندھو کشتی پر ٹھٹہ سے حیدرآباد جاتے ہوئے—اے آئی

کرو 2 مارچ 1800ء کو، مسٹر دُرہم اور توپ خانے کے دو لوگوں کے ساتھ ٹھٹہ سے گزرتے ہوئے 19 کو حیدرآباد پہنچا۔ وہ سب امیروں سے ملا بالخصوص میر غلام علی تالپور نے اُسے تعاون کا یقین دلایا اور کہا کہ وہ سندھ کو اپنا ملک سمجھے۔ کمپنی کی کوٹھی کو وسیع کرنے اور 100 ملازم اپنی مرضی سے رکھنے کی کرو کو آزادی دی گئی۔

کرو نے گزارش کی کہ آنے والے دنوں میں اگر کوئی غلط فہمی جنم لے یا اس کے خلاف کوئی شکایت پہنچے تو اسے بلا کر پہلے سنا جائے۔ اس کے بعد کوئی فیصلہ کیا جائے۔ کرو اپنے ساتھ وہ سوتی کپڑے کے تھان لے آیا تھا جنہیں دیکھ کر امیروں نے پسند کیا تھا اور اسے یہ امید دلائی تھی کہ سالانہ 2 سے 5 لاکھ تک کا کپڑا خریدا کریں گے۔

اس کے بعد میر صاحبان 10 دنوں کے لیے شکار پر چلے گئے اور 10 یا 12 دن کے بعد لوٹے اور کوٹھی کے دیگر معاملات پر تفصیل سے بات چیت ہوئی جس کے نتیجے میں 14 اپریل کو سندھ کے امیر میر فتح علی خان کی مہر کے ساتھ کچھ حکم نامے جاری ہوئے جس میں ’کمپنی کے بیوپاری جہازوں کے درآمدی سامان پر مقررہ فیس کی معطلی کے احکامات تھے اور ناتھن کرو کے یہاں آنے کو سراہا گیا تھا جبکہ یہ امید کی گئی کہ یہ تجارتی کوٹھی کمپنی اور سندھ حکومت کی دوستی کو اور مضبوط بنانے کا سبب بنے گی۔

دیگر ٹیکسوں پر بھی اچھی خاصی چھوٹ دی گئی اور کمپنی کے جہازوں اور چھوٹی کشتیوں پر ایک برس کے لیے ٹیکس معاف کردیا گیا اور کمپنی کے ریزیڈنٹ کو کراچی قلعے کے دروازوں سے داخل ہونے کا حق بھی دیا گیا۔

یہ حکم نامہ بھی اسی تاریخ کو ’دیوان‘ نے امیر کی موجودگی میں کراچی کے قلعےدار کے لیے جاری ہوا جس کی مختصر تحریر کچھ اس طرح سے تھی کہ ’کراچی شہر کے قلعےدار اور علمدار سمجھ جائیں گے کہ برطانوی محترم کرو کو ہماری طرف سے سچے وفادار کا رتبہ دیا گیا ہے اس لیے اس کی عزت کی خاطر یہ ہدایات دی جاتی ہیں کہ جب وہ ہتھیاروں سے قلعے کے دروازے میں داخل ہو یا باہر نکلے تو اس کے ساتھ کسی بھی قسم کی حرکت نہ کی جائے اور نہ ہی کوئی رکاوٹ ڈالی جائے۔ آپ پر اس حکم پر عمل کرنے کی سخت تاکید کی جاتی ہے‘۔ —تاریخ: 19 ذوالقعد 1215 ہجری / 14 اپریل 1800ء۔

ناتھن کرو خوش تھا اور اُسے خوش ہونا بھی چاہیے تھا کیونکہ بیوپاریوں کی اتنی شدید مخالفت کے باوجود بھی وہ کراچی میں کمپنی کی تجارتی کوٹھی قائم کرنے میں کامیاب ہوا۔ آنے والے مہینوں یعنی مئی، جون، جولائی میں، کرو کی خط و کتابت سے لگتا ہے کہ وہ بہت مصروف رہا اور بمبئی گورنر کو کراچی کوٹھی کے لیے کپڑا اور دوسرا سامان جلدی بھیجنے کے لیے خط تحریر کرتا ہے اور افغانستان کی سیاسی صورت حال جو اسے معلوم ہو سکی اُس کی تفصیل بھی تحریر کرتا ہے۔

ہمارے سامنے جو حالات ہیں ہم انہیں محسوس کرکے خوش ہوتے ہیں یا دکھی ہوتے ہیں۔ اس لیے ناتھن کرو کو سندھ کے حاکموں سے جو رعایتیں حاصل ہورہی ہیں وہ ہمارے لیے بھی حیرت انگیز ہیں اور کرو کی تو بات ہی کیا۔ وہ تو بہت خوش ہے۔ مگر حالات کے برگد کے پیڑ پر جو وقت کا عقاب اپنی تیز نظروں سے دور دور تک دیکھ رہا ہے، اسے کمپنی سرکار کی خوشی کے اگتے درخت کی عمر طویل نظر نہیں آ رہی ہے کیونکہ اسے مشرق اور شمال سے سرخ آندھی اٹھنے کے آثار دکھائی دے رہے ہیں جن کا رخ کراچی کے ساحل کی جانب ہے۔

چلیے جلد ہی ملتے ہیں یہ دیکھنے کے لیے کہ وقت کی آنکھوں میں اگتی پیشن گوئی کب حقیقت بنتی ہے۔

حوالہ جات

  • Memoirs of Seth Naomul Hotchand, CS.L, Of Karachi. 1804-1878. Rao Bahadur Alumal Tikamdas Bhojwani. 1915
  • British Policy Towards Sindh. C.L. Mariwalla. 1947.
  • ’کمپنی کی حکومت‘۔ باری علیگ۔ لاہور بک سٹی، لاہور
  • ’نگری نگری پھرا مسافر‘۔ ابوبکر شیخ۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور
  • ’سندھو گھاٹی اور سمندر‘۔ ابوبکر شیخ۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور
ابوبکر شیخ

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
OSZAR »