• KHI: Fajr 4:24am Sunrise 5:48am
  • LHR: Fajr 3:34am Sunrise 5:07am
  • ISB: Fajr 3:32am Sunrise 5:08am
  • KHI: Fajr 4:24am Sunrise 5:48am
  • LHR: Fajr 3:34am Sunrise 5:07am
  • ISB: Fajr 3:32am Sunrise 5:08am

سندھ طاس معاہدے کی معطلی کا قانونی پہلو

شائع April 25, 2025

بھارت کے زیر قبضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے بزدلانہ واقعے کے فوراً بعد پاکستان نے انتہائی واضح انداز میں اس واقعے کے ذمہ داروں سے خود کو الگ کر لیا۔

تاہم بھارت مسلسل اس بات پر اصرار کر رہا ہے کہ یہ واقعہ براہ راست یا بالواسطہ طور پر پاکستانی ریاست کی منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا حالانکہ اس دعوے کے حق میں نہ تو کوئی ثبوت منظر عام پر لایا گیا اور نہ ہی اسے پاکستان سے شیئر کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ بھارت کا یہ عمل بدنیتی پر مبنی ہے۔ سندھ طاس معاہدے کو اپنے الزامات کی بنیاد پر معطل رکھنا 1969 کے ویانا کنونشن کی شق 26 کی کھلی خلاف ورزی ہے، جو یہ کہتی ہے کہ معاہدے ’نیک نیتی سے انجام دیے جانے چاہئیں‘۔

سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل رکھنا پاکستان کی جانب سے ایک اعلان جنگ سمجھا جائے گا اور یہ اقدام پاکستان کے بنیادی قومی مفادات کے لیے تباہ کن ہے۔ پاکستان اپنی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی زرعی شعبے کے لیے دریائے سندھ پر مکمل انحصار کرتا ہے۔ پاکستان کی آب پاشی کا 80 فیصد سے زائد انحصار سندھ طاس کے پانی پر ہے۔ پانی کی فراہمی میں خلل پہلے سے موجود پانی کی قلت میں مزید اضافہ کرے گا، فصلوں کی پیداوار میں کمی لائے گا اور خاص طور پر پنجاب اور سندھ جیسے پانی کی قلت سے متاثرہ صوبوں میں داخلی بےامنی کو جنم دے گا۔

ویانا کنونشن اور سندھ طاس معاہدے میں کسی معاہدے کو معطل رکھنے کی کوئی شق موجود نہیں۔ البتہ ویانا کنونشن میں معاہدے کی معطلی سے متعلق دفعات موجود ہیں۔ لہٰذا یہ ایک قانونی سوال ہے جس کا فیصلہ کسی مجاز عدالتی فورم کو پہلی بار کرنا ہوگا کہ آیا ’معطل رکھنا؛ اور ’معطلی‘ ایک ہی مفہوم رکھتے ہیں۔ چونکہ سندھ طاس معاہدے کے سیاق و سباق میں اس نقطے پر کوئی مستند عدالتی فیصلہ موجود نہیں ہے، لہٰذا فی الحال ہمیں یہ مفروضہ اختیار کرنا ہوگا کہ ’معطل رکھنا‘ دراصل ’معطلی‘ کے مترادف ہے۔

ویانا کنونشن میں معاہدے کی معطلی سے متعلق دفعات پانچویں حصے میں بیان کی گئی ہیں۔ شق 42 کے مطابق کوئی معاہدہ صرف ویانا کنونشن کی شقوں کی روشنی میں ہی معطل کیا جا سکتا ہے۔ شق 57 معاہدات کی معطلی سے متعلق ہے اور اس میں بتایا گیا ہے کہ:
’کسی معاہدے کا نفاذ تمام فریقین یا کسی مخصوص فریق کے لیے معطل کیا جا سکتا ہے:
(الف) معاہدے کی دفعات کے مطابق؛ یا
(ب) کسی بھی وقت تمام فریقین کی باہمی رضامندی سے دیگر معاہدہ کرنے والے ممالک سے مشاورت کے بعد۔“

دلچسپ بات یہ ہے کہ سندھ طاس معاہدے میں معطلی سے متعلق کوئی شق موجود نہیں ہے، نہ ہی بھارت نے معاہدے کو معطل کرنے کے ارادے سے پاکستان سے کوئی مشاورت کی ہے۔ لہٰذا سندھ طاس معاہدے کی معطلی ویانا کنونشن کی شق 42 اور 57 کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ویانا کنونشن کی ایک اور شق، شق 60 بھی معاہدوں کی معطلی کی اجازت دیتی ہے اور وہ اس وقت معاہدہ معطل کرنے کی اجازت دیتی ہے جب کسی فریق کی طرف سے معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی ہو۔ بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی کسی ایسی خلاف ورزی کے الزام پر مبنی نہیں ہے جو پاکستان نے کی ہو۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت کا اقدام نہایت اشتعال انگیز ہے کیونکہ یہ کمزور بنیادوں اور بدنیتی پر مبنی ہے۔ اس تیزی سے تبدیل ہوتی صورت حال سے نمٹنے کے لیے تین نکاتی لائحہ عمل اختیار کرنے کا مشورہ مندرج ہے:

1. پاکستان کو سندھ طاس معاہدے کی دفعات کی روشنی میں اپنے اختیارات پر غور کرنا ہوگا۔ معاہدے کی نویں شق ایک عدالتی ثالث کے قیام کا طریقۂ کار بیان کرتی ہے۔ تاہم یہاں ایک قانونی پیچیدگی موجود ہے۔ نجی بین الاقوامی قانون میں کسی معاہدے کے ختم یا منسوخ ہو جانے کے بعد بھی ثالثی کی شق برقرار رہتی ہے لیکن موجودہ معاملہ چونکہ عوامی بین الاقوامی قانون کے دائرے میں آتا ہے، لہٰذا یہ جانچنے کی ضرورت ہے کہ آیا نویں شق میں موجود ثالثی کی شق معاہدے کے معطل ہونے کے بعد بھی مؤثر رہے گی۔ تاہم یہ بات واضح ہے کہ بھارت جب کہ وہ سندھ طاس معاہدے کو منسوخ قرار دے چکا ہے، کسی بھی ثالثی کی کوشش کا جواب نہیں دے گا۔

2. اقوام متحدہ کے چارٹر کے ساتویں باب کے تحت سلامتی کونسل ایسے معاملات کا جائزہ لینے کی مجاز ہے جو بین الاقوامی امن کے لیے خطرہ بن سکتے ہوں اور اس کے مطابق مناسب کارروائی کر سکتی ہے تاکہ عالمی امن و سلامتی کو قائم رکھا جا سکے۔ سندھ طاس معاہدے کو معطل رکھنا یقیناً بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کا باعث بنے گا اور مزید تنازعات کو جنم دے سکتا ہے۔ اگر ان دو جوہری طاقتوں کے تعلقات مزید خراب ہوتے ہیں تو یہ بین الاقوامی امن کو خطرے میں ڈالے گا۔ آج کے دور میں اقتصادی، سماجی، انسانی اور ماحولیاتی عوامل بھی امن و سلامتی کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔ لہٰذا یہ تنازع اقوام متحدہ کے چارٹر کے ساتویں باب کے تحت نمٹائے جانے کے قابل ہے، جس پر سلامتی کونسل کارروائی کر سکتی ہے۔ شق 40 کے تحت سلامتی کونسل کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ابتدائی طور پر عارضی ریلیف فراہم کرے، جبکہ شق 39 کے تحت تنازع کے حتمی حل کا فیصلہ بعد میں کیا جا سکتا ہے۔

3. جون 1998 میں سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین کی جانب سے دیے گئے بیان کو بھی بروئے کار لایا جاسکتا ہے، جس میں انہوں نے یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر ان دو جوہری طاقتوں کے درمیان امن کو خطرہ لاحق ہوا تو وہ مداخلت کریں گے۔ اس مقصد کے لیے ان پانچوں مستقل رکن ممالک کو باضابطہ طور پر ایک پیغام بھیجا جا سکتا ہے جس میں پاکستان کے قانونی اور اسٹریٹجک دلائل درج ہوں۔

سندھ طاس معاہدہ بھارت اور پاکستان کے درمیان واحد معاہدہ ہے جو تین بڑی جنگوں جموں و کشمیر اور دونوں ممالک کے مختلف حصوں میں ہونے والی بغاوتوں اور 2002 کے فوجی بحران کے باوجود قائم رہا ہے۔ اس معاہدے کو دنیا بھر میں ایک سرحد پار آبی تنازع کے کامیاب حل کی روشن مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی نے ایسے کئی اقدامات کا اعلان کیا ہے جو بین الاقوامی قانون کے تحت جائز جوابی اقدامات کے زمرے میں آتے ہیں۔ امید ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا دفتر بروقت کردار ادا کرے گا، اس سے پہلے کہ صورتحال مزید بگڑ جائے۔

اس تحریر کو انگریزی میں پڑھیں۔

احمر بلال صوفی
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 13 مئی 2025
کارٹون : 12 مئی 2025
OSZAR »